Alerts

United we stand.

Monday, June 03, 2013

انگریزی اور اردو زبان





 مجھے انگریزی سے نفرت تو نہیں لیکن اس بڑھتے ہوئے رُجحان کے پیچھے ممکنہ اندازِ فِکَر کے متعلق سوچ کر برہمی ہوتی ہے۔ میرے ذَہِین میں اس موضوع پر اکثر سوال اٹھتے ہیں اور میرا خیال ہے کہ بحثیتِ قوم اس پر ساری پاکستانی قوم کوغور و فِکر اورجانچ پرکھ کرنے کی ضرورت ہے۔
جب مختلف قوموں کے لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ایک دوسرے کی زبانوں کے چند الفاظ ضرور ایک دوسرے کی زبانوں میں شامل ہو جایا کرتے ہیں۔ اور جو زبان الفاظ اپنے اندر سمو سکتی ہے وہ زبان زندہ بھی رہتی ہے اور ترقی بھی کرتی ہے۔ تاہم اپنی زبان کی اصل کو ویسے تباہ کر دینا جیسے آجکل ہم لوگ کر رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ سخت
زیادتی ہے
انگریزی کی اس قدر اہمیت کے پیشِ نظر ہمارا معاشرہ دو حصوں میں بٹ گیا ہے ایک اردو دان اور دوسرا انگریزی دان۔ انگریزی بولنے والا طبقہ اپنے آپ کو ہر لحاظ سے برتر اور تعلیم یافتہ تصور کرتا ہے جبکہ اردو بولنے والے طبقے کو عام اور کمتر سمجھا جاتا ہے چاہے وہ کتنا ہی قابلیت کیوں نہ رکھتا ہو۔ اس معاشرتی تقسیم نے اردو دان طبقے میں احساسِ کمتری پیدا کر دی ہے جس کے باعث ملکی افکار اور نظریات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ 

لوگ اپنے بچوں کو انگریزی ذریعہ تعلیم کے اداروں میں اس لئے بھیجتے ہیں کہ یہاں سے فارغ التحصیل ہوکر وہ اچھےعہدوں پر فائز ہوں گے کیونکہ اس سے معاشی خوشحالی آتی ہے دوسرے نظام تعلیم اور انگریزی کے حامیوں کے درمیان کھنچا پایا جاتا ہے۔ جس سے ملکی وحدت متاثر ہوتی ہے۔ غرض یہ کہ انگریزی تعلیم نے ہمیں ایک طرف جدید علوم کے خزانے دیئے ہیں تو دوسری طرف طبقاتی تقسیم کھڑی کرکے احساسِ محرومی کا شکار بنا دیا ہے۔ہمارے ملک میں دوہرا نظام رائج ہے اردو اور انگریزی جہاں انگریزی کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے انگریزی اداروں کے طلبہ مقابلے کے امتحانات پاس کرکے اعلیٰ ملازمتیں حاصل کرتے ہیں جبکہ اردو ذریعہ تعلیم کے فارغ التحصیل طلبہ ڈگریاں اٹھائے ہوئے حصولِ ملازمت کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں اور ادنیٰ ملازمتوں میں جگہ پاتے ہیں

انگریزی ذریعہ تعلیم کے اداروں کا کمال یہ ہے کہ ہمارے طالب علموں کو شیکسپئر، ملٹن، برنارڈ شاہ کا تو علم ہے لیکن معروف مسلمان شاعر حسان بن ثابت، فلسفی ابن رشید، سائنس داں ابن سینا، ابو ریحان البیرونی کے کارناموں سے وہ ناواقف ہیں انھیں لاتعداد انگریزی مضامین اور نظمیں تو ازبر ہیں لیکن قرآنی حدیث کا کوئی حصہ اور اسلامی تاریخ کے سورماں کے کارناموں سے ناواقفیت ہے۔مختصر یہ کہ انگریزی ذریعہ تعلیم نے علم ثقافت کی بنیاد پر کاری ضرب لگائی ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کا نوجوان طبقہ لندن اور امریکہ کا اثر تو بہت جلد قبول کر لیتا ہے لیکن مذہب کی بات اور اثرات اس لئے قبول نہیں کرتا کہ مغرب میں مذہب کی گرفت ڈھیلی پڑ چکی ہے

اپنی زبان کا علم قوموں کی پہچان اور اُنکی تہذیبوں کا منبع ہوتا ہے۔اگر علم اپنی زبان میں حاصل کیا جائے تو قوموں کے بچوں  کو مشاہدات، تجربات، تحقیقات اور نتائج حاصل کرنے میں دقت نہیں ہو تی۔ اپنی زبان کا علم حاصل کرنے میں سب سے پہلے اپنی نسل میں اپنے گزرے ہوئے سائنسدان، دانشور، فلسفی ، ڈاکٹر، انجینئر کی ایجا دات اور اُنکے کارنامے اگلی نسل کی بقا کو محفوظ رکھنے میں اپنی تہذیب و تمدن اگلی نسل کے ذہنوں میں بیٹھ جا تی ہے اور وہ نسل اپنے مشاہیر سے محبت کرتے ہیں اور دوسری اقوام کے مقابلے میں اپنے مشاہیر کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ مگر یہاں گنگا اُلٹی بہہ رہی ہے۔
۔۔اردو جو ہماری قومی زبان ہے اس کا استعمال کم ہوتا جا رہا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ زبان، دو نسلوں کے درمیان سب سے مضبوط رشتہ اور سب سے بڑا سرمایہ ہے زبانوں کا عروج و زوال قوموں کا عروج و زوال ہے۔ زبان کسی قوم کی سب سے بڑی پہچان ہے۔ اب جب کہ ہماری قوم اردو بولنے کے نہیں، بھولنے کے عمل سے گزر رہی ہے تو ہمیں اپنے مستقبل کو حال سے بچانا ہوگا، ورنہ ہم صرف ماضی ہی میں سانس لے سکیں گے۔
شاید ہم یہ حقیقت بھول چکے ہیں کہ جس قوم کی زبان نہیں رہتی وہ قوم بھی نہیں رہتی۔ 

BY:
RUBY SAJID MALIK




2 comments:

  1. kafi interesting topic par baat ki hai apnay. good

    ReplyDelete